Showing posts with label Governor. Show all posts
Showing posts with label Governor. Show all posts

اسلامی جمہوریہ شریفیہ میں گورنر کی تعیناتی کی کہانی




اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے غیور شہریوں کے مبارک، جمہوریہ شریفیہ کے سب سے بڑے صوبے کے با غیرت اور با شعور عوام کو سلامت۔ پاکستان کے ہر دل عزیز راہنما، قائد اعظم ثانی، نیلسن منڈیلا ثانی، صلاح الدین ایوبی ثانی، فخر ایشیا، سرمایہ کارِسعودیہ و برطانیہ، اعلیٰ حضرت بڑے میاں نے طویل غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد پنجابی عوام کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عدد گورنر کی تعیناتی کا تاریخ ساز فیصلہ کر لیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ اس کارِ عظیم کے صلے میں تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ عوام کو یہ بھی یقین بھی ہونا چاہیے کہ نئے گورنر کی تعیناتی کے بعد پنجاب کے ہر شہر میں دودھ اور شہد کی ایک ایک نہر پھوٹے گی۔ ہر گلی میں امن کا طوطی بولا کرے گا۔ ہر چوک پر شانتی بین بجایا کرے گی اور نو من تیل ساتھ لیے رادھا ناچا کرے گی۔ جو ناہنجار اس پر شک کرے، ہمارے علمائے کرام کو اسے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہونی چاہیے۔ 

تفصیلات کے مطابق سابق گورنر پنجاب گورنر کی حقیقی ذمہ داریوں سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے کفران نعمت کے بار بار مرتکب ہو رہے تھے۔ جب ان کو اپنے اس گناہ عظیم کا احساس ہوا تو وہ اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئے اور آج کل کفارے کے طور پر لندن کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ یوں ان کی رخصتی کے بعد پنجاب کے گورنر کی کرسی خالی پڑی تھی۔ گورنر کے دفتر میں بھی الو بولنا شروع ہو چکے تھے۔ گورنر ہاؤس کی غلام گردشوں میں ویرانی ناچ رہی تھی۔ دنیا سوال کر رہی تھی کہ جو حکومت ایک عدد گورنر بھی تعینات نہیں کر سکتی، وہ دہشت گردوں کا مقابلہ خاک کرے گی۔ سب سے بڑھ کے پنجاب کے عوام اس محرومی کے احساس میں مبتلا ہونے لگی تھی کہ ہم بھی کیسے لوگ ہیں جن کا کوئی گورنر بھی نہیں۔ اگرچہ ایک عدد نئے گورنر کی ضرورت ہر گز نہ تھی۔ چھوٹے میاں جی وزارت اعلیٰ کے ساتھ ساتھ گورنری کا بوجھ بھی اپنے فولادی کاندھوں پر اٹھا سکتے تھے مگر اسلامی جمہور شریفیہ کے پردھان منتری کاغذی دولت کے ساتھ ساتھ دردِدل کی دولت سے بھی مالا مال واقع ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم ہاؤس سے کر مری کے یخ بستہ موسم میں وہ قوم کے دکھ درد میں کڑھتے رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی راتوں کی نیند اڑ چکی ہے۔ چہرے پر ویرانیوں کو بسیرا ہے۔ وزن کم ہو کر آدھا رہ گیا ہے ۔  قوم کے غم کی ہی وجہ سے وہ اکثر فائلوں پر ضروری توجہ نہیں دے پاتے اور کئی کام ادھورے رہ جاتے ہیں۔ بُرا ہو ان ناقدین کا، جو ہر وقت ہمارے معصوم وزیر اعظم پر پھبتیاں کستے رہتے ہیں۔

بہر حال، اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے ہر دل عزیز راہنما، قوم کی ڈوبتی کشتی کے واحد سہارے کے طور پر محمد شاہ رنگیلا کی بجائے سلطان صلاح الدین ایوبی کے نقش قدم پر چلنے کا پر خطر اور کٹھن فیصلہ کرتے ہیں۔ رائے ونڈ میں اپنی غریب گاہ میں ایک اہم اجلاس طلب کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے اہم عہدے داروں کے علاوہ ملک کے طول و عرض سے خاندانی بھانڈ، ٹٹ پونجیے، مالشیے، خاکروب، میراثی، موت کے کنووں کے سامنے گانے والے، سرکس میں اپنے کرتب دکھانے والے بطور امیدوار اس بزم میں شامل ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے اصحاب کو بھی خصوصی دعوت دی گئی جو خوشامد، چاپلوسی، چرب زبانی اور لوٹ کھسوٹ کے فن میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔ اس بات کا خصوصی اہتمام کیا گیا کہ اس بزم میں صرف وہی اصحاب شامل ہوں جن کے روشن اذہان ہر قسم کی سیاسی سوجھ بوجھ کی آلائش سے صاف اور پاک ہوں۔ ان افراد کا داخلہ اس بزم میں ممنوع قرار دیا گیا جن کے سینے میں ضمیر نام کی کوئی شے مرتے دموں پر بھی پائی گئی۔ 


ہماری چڑیا بھی اس محفل کے ایک کونے میں دبکی اس تاریخ ساز اجلاس کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ۔ رسمی علیک سلیک کے بعد انٹرویوز کا سلسلہ شروع ہوا، جو لمبا ہوتا چلا گیا ۔ انٹرویو کے دوران امیدواروں سے مختلف قسم کے سوال کیے گئے، امیدواروں کے جوابات کی روشنی میں ان کی شخصیت کا تجزیہ مختلف زاویوں سے کیا جاتا۔ ان تجزیوں میں یہ بات سامنے آتی، کہ انتہائی بے ضمیر انسانوں اور مردہ دلوں میں بھی اپنے ہم نفسوں کی بہتری اور بھلائی کے لیے کچھ کرنے کی تمنا کسی کونے کھدرے میں پائی جاتی ہے۔ چونکہ اسلامی جمہوریہ شریفیہ اور اس کے عوام دو مختلف چیزیں ہیں لہٰذا، اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے وسیع تر مفاد کی خاطر یہ امیدوار مسترد کیے جاتے رہے۔ یہ اتنا مشکل انتخاب تھا کہ ایک ایسا خاندانی بھانڈ، جس کے پرکھوں نے اکبر اعظم کے دربار میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا، بھی ناکام ہو گیا۔ جمہوریہ شریفیہ کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر کی تعیناتی کا عمل لمبا ہونے لگا۔ امید نا امیدی میں بدلنے لگے۔ تبھی انٹرویو کے لیے قرعہ فال جناب عطاء شریف قاسمی کے حق میں نکلا۔ جناب قاسمی نے اپنی بابرکت اور بھاری تشریف امیدواری کی کرسی میں رکھی۔ اسلامی جمہوریہ شریفیہ کی مقتدر ترین ہستی کی جانب سے دھیمے لہجے میں ایک سوال کیا گیا۔ لہجہ اتنا دھیما تھا کہ صرف قاسمی صاحب کی سماعتیں ہیں سماعت کا شرف حاصل کر پائیں۔ جناب قاسمی نے اپنی آنکھیں بند کیں۔ چشمِ تصور میں پٹھانے خان کو دیکھا، اندھی عقیدت کو چھوتے ہوئے عشقیہ لہجے میں حضرت خواجہ ّغلام فرید کا یہ کلام پیش کیا 

میڈا عشق وی توں، میڈا یار وی توں
میڈا دین وی توں، ایمان وی توں

میڈا جسم وی توں، میڈا روح وی توں
میڈا قلب وی توں، جند جان وی توں

میڈا کعبہ، قبلہ، مسجد، منبر
مصحف تے قرآن وی توں

میڈے فرض، فریضے، حج، زکوٰتاں
صوم، صلوٰات، اذان وی توں

میڈی زُہد، عبادت، طاعت، تقوٰی
علم وی توں، عرفان وی توں

میڈا مرشد، ہادی، پیر طریقت
شیخ حقائق دان وی توں

میڈا حسن تے بھاگ، سہاگ وی توں
میڈا بخت تے نام نشان وی توں


حضرتِ قاسمی کی عقیدت اور عشق میں رندھی ہوئی آواز، اوپر سے عاشقین جمہوریہ شریفیہ کے درمیان محبوبِ اول کی بنفسِ نفیس موجودگی، ہماری چڑیا کا کہنا ہے کہ حاضرینِ محفل ہر ایک وجد سا طاری تھا۔ حکومت کے کچھ وزیر مجذوبانہ رقص کر رہے تھے تو کچھ دیوانہ وار۔ کچھ کی آنکھوں میں آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لے رہے تھے۔ سبھی چہرے عالم محویت میں اپنے محبوب اور جمہوریہ شریفیہ کے تاجدار کے منور چہرے کے طرف دیکھے ہی جا رہے تھے۔ ہر دل میں ایک ہی تمنا تھی کہ وقت تھم جائے۔ صدر مملکت اسلامی جمہوریہ شریفیہ، جن کی موجودگی اس سے قبل محسوس نہ کی گئی تھی، نے اپنی سامنے پڑی میز استعمال کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے طبلہ بجایا۔ محترم وزیر دفاع اٹھے اور انہوں نے منی بدنام ہوئی کی لے پر بھر پور ٹھمکا لگایا۔  محترم وزیر اعظم اور سبھی حاضرین محفل متفق تھے کہ اگر پڑوسی ملک سے جنگ کی نوبت آئی تو دشمن کو میدان جنگ میں بدنام کرنے لیے محترم وزیر کا ایک ٹھمکا ہی کافی ہو گا۔ اس پر جناب وزیر اعظم جمہوریہ شریفیہ نے ملک کی دفاعی تیاریوں پر بھرپور اطمینان کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اب دشمن کو ہماری طرف بری آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرات نہ ہو گی۔ اس کے بعد، جنابِ صدر نے بڑے میاں جی کی منظوری اور تھپکی کے بعد جنابِ قاسمی کو نیا گورنر مقرر کیا۔ اس موقع پر جنابِ صدر نے یہ بھی کہا کہ چونکہ آج کل کار حکومت فوج دیکھ رہی ہے لہٰذا، اگلے گورنر کی تعیناتی تک حکومت کو چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ جنابِ صدر نے اس با برکت موقع پر یہ خوش خبری بھی سنائی کہ چھٹیوں کے دوران تمام حکومتی عہدیداروں کو تنخواہیں اور دیگر مراعات باقاعدگی سے ادا کی جائیں۔ اس کے بعد اجتماعی دعا کی گئی ۔ مولوی صاحب نے کہا کہ اللہ ہم پاکستانی عوام کو تیرے سپرد کرتے ہیں۔ اس پر تمام 
حکومتی عہدیداروں نے بلند آواز سے کہا، آمین۔